Who is Running Pakistan, Brother?

Spread the love




پاکستان کے موجودہ دور میں جب ہر شعبہِ زندگی ڈیجیٹلائزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے، ہمارے حکمران ایسے اقدامات میں مصروف نظر آتے ہیں جو عام شہری کی مشکلات اور اقتصادی مسائل سے کٹ کر ہیں۔ آج کل کی سیاسی گفتگو میں یہ سوال سر بلند ہوتا ہے: “پاکستان کون چلا رہا ہے بھائی؟”

حکومتی دورے اور غیر ملکی مصروفیات



حالیہ دنوں میں، ہمیں اپنے لیڈران کے غیر ملکی دوروں کی خبریں بار بار سننے کو ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر:

پرائم منسٹر: متحدہ عرب امارات گئے ہوئے ہیں۔

صدر آصف علی زرداری صاحب: پرتگال میں موجود ہیں۔

بلاول بھٹو: امریکہ میں صرف ناشتہ کرنے گئے ہوئے ہیں۔

ڈپٹی پرائم منسٹر اسحاق ڈار: متحدہ عرب امارات کی سیر پر ہیں۔



انفارمیشن منسٹر عطا تارڑ: متحدہ عرب امارات کا رخ کیا ہوا ہے۔

ڈیفینس منسٹر خواجہ آصف: متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام منسٹر شیزہ فاطمہ: سعودی عرب میں مصروف ہیں۔

باقی کیبنٹ ممبرز: دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ اٹینڈ کر رہے ہیں۔


یہ تمام غیر ملکی دورے ہمیں ایک ایسے وقت میں دکھائی دیتے ہیں جب ملک کے اندرونی مسائل اور قرضوں کی بھاری بوجھ کی خبر سر عام ہے۔

اقتصادی بوجھ اور عوام کی پریشانی



اگر ایک غریب ملک کے حکمران اپنی فارن ٹرپس کو روک دیں تو شاید کچھ قرضوں اور غیر ضروری اخراجات میں کمی آسکتی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں زوم اور گوگل میٹ کے ذریعے بہت سی ملاقاتیں ممکن ہو چکی ہیں، ہمارے حکمران کیوں پرانے طریقوں پر قائم ہیں؟
عوام کے لیے روزمرہ کی مشکلات جیسے مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی کمی کے مسائل کے باوجود، حکومت اپنے سفرنامے اور بین الاقوامی ملاقاتوں کو ترجیح دے رہی ہے۔

ڈیجیٹل کرائم اور قانونی دباؤ



ایک عام پاکستانی کی زندگی اب ڈیجیٹل کرائم، سائبر کرائم، پیمرا ایکٹ اور ڈیجیٹل دہشت گردی ایکٹ کے خوف سے گھری ہوئی ہے۔ جب قوانین اور ضوابط کی بنا پر عام شہری خوفزدہ رہتے ہیں، تو حکمران کس طرح ملک کا موثر انداز میں انتظام کر سکتے ہیں؟
یہ سوال ذہن میں اس وقت اور بھی گہرائی اختیار کر جاتا ہے جب ایک طرف حکومتی سطح پر غیر ضروری دورے جاری ہیں اور دوسری طرف عوام کی روزمرہ کی زندگی متأثر ہو رہی ہے۔

نتیجہ: پاکستان کا مستقبل اور حکمرانی کا معیار



یہ صورتحال ہمیں ایک واضح سوال پر مجبور کرتی ہے: پاکستان کون چلا رہا ہے بھائی؟


کیا حکمران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں؟ یا پھر یہ غیر ضروری فارن ٹرپس اور بین الاقوامی نشستیں صرف ظاہری خوبصورتی اور ذاتی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن چکی ہیں؟

جب کہ دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی راہ پر گامزن ہے اور مواصلاتی ذرائع تیزی سے بدل رہے ہیں، ہمیں بھی اپنے حکمرانی کے نظام میں جدیدیت لانے کی اشد ضرورت ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ حکمران بھی زوم اور گوگل میٹ کے دور میں قدم رکھیں اور اپنے فارن ٹرپس کو کم کرکے عوام کی مشکلات پر توجہ دیں۔



یہ مضمون ایک سوال کو مرکزی خیال بنا کر لکھا گیا ہے، جو ہر ایک پاکستانی کے ذہن میں گونجتا ہے۔ امید ہے کہ اس پر ہونے والی گفتگو سے ملک کے نظامِ حکمرانی میں بہتری آئے گی اور عوام کی آواز کو موثر انداز میں سنا جائے گا۔


Spread the love

Leave A Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *